سلیمان اول سلطنت عثمانیہ



سلیمان اول  سلطنت عثمانیہ کے دسویں فرمانروا تھے جنہوں نے 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض
 انجام دیے۔ وہ بلاشبہ سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم حکمران تھے جنہوں نے اپنے بے مثل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ انہوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر ترک انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ 

روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔

:ابتدائی زندگی
سلیمان 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول دولت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے جبکہ والدہ کا نام عائشہ حفصہ سلطان تھا۔ سلیم اول نے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16 سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انہیں مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سے 
قسطنطنیہ میں موجود تھے۔

:تعلیم
سات سال کی عمر میں سلیمان کو سائنس، تاریخ، ادب، الہیات اور جنگی فنون سیکھنے کے لیے توپ کاپی محل، قسطنطنیہ  میں بھیجا گیا تھا۔ جوانی کے دور میں اس کی دوستی پارگلی ابرہیم سے ہوگئ تھی، جو ایک غلام تھا اور بعد ازاں اس کا سب سے بااعتماد مشیر بنا۔

:ذاتی اوصاف و اخلاق
سلطان سلیمان چھبیس سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، بایزید ثانی کے عہد میں جب اس کی عمر بہت کم تھی، وہ مختلف صوبوں کا حاکم رہ چکا تھا، پھر جب سلیم اول نے ایران پر حملہ کیا تو سلیمان کو ناٸبِ سلطنت کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں چھوڑ گیا، اس کے بعد جنگِ مصر کے دوران میں وہ ادرنہ کا حاکم تھا اور پھر سلیم اول کے عہد کے آخری دو سالوں میں ولایت صادر خان کا انتظام اسی کے سپرد تھا، چنانچہ جب سلیم اول کی وفات کے بعد وہ تخت پر آیا تو ایک کامیاب مدبر اور لاٸق فرمان روا کی شہرت حاصل کرچکا تھا، ذاتی عظمت میں وہ اپنے تمام پیش روؤں سے بڑا تھا اور فتوحات اور وسعتِ سلطنت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت لے گیا، اس عہد میں سلطنت عثمانیہ اپنی انتہاٸی حد کمال تک پہنچ گٸی، اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی، وہ اپنے رحم و کرم کے لٸے خاص طور پر مشہور تھا، انصاف اس کا مخصوص شیواہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ و مذہب کی کوٸی تفریق نہ تھی، رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمح نظر تھا، چنانچہ جب وہ تخت نشین ہوا تو تمام رعایا نے اس نوجوان سلطان کا جو اپنے اخلاق، شجاعت، انصف، رحم دلی اور دانش مندی کی بنا پر حد درجہ ہر دل عزیز تھا، نہایت مسرت کے ساتھ استقبال کیا، اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں اس نے انصاف اور رحم دلی کی ایسی مثالیں پیش کیں جس سے اس کے آٸندہ طرزِ عمل سے متعلق نہایت خوش آٸند توقعات قاٸم کی جانے لگی، سلطان سلیم اول نے چھ سو مصریوں کو بہ جبر مصر سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا تھا، سلیمان نے ان سب کو اپنے وطن واپس اجازت دے دی، سلیم اول نے بعض تاجروں کا سامانِ تجارت ایران سے تجارت کی پاداش میں ضبط کر لیا تھا، سلیمان نے نقد روپیہ دے کر ان کے نقصان کی تلافی کردی، اس کے حکم سے سلطنت کے بعض اعلٰی حکام بددیانتی اور ظلم کے جرم میں گرفتار کٸے گٸے اور ان کو سخت سزاٸیں دی گٸیں، ان واقعات کی خبریں تمام سلطنت میں پہنچیں اور رعایا کو اپنی جان و مال کی طرف سے اطمینان ہو گیا، سلیمان نے تمام صوبہ داروں کے پاس احکام بھیجے کہ رعایا کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی روا نہ رکھی جائے اور امیر وغریب، مسلم و غیر مسلم کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کیا جائے، ان احکام کے نفاذ سے ہر طرف امن و امان قاٸم ہو گیا، البتہ غزالی نے جسے سلطان سلیم اول نے مصری حکومت سے غداری کے صلہ میں شام کا حاکم بنایا تھا، سرکشی کا اظہار کیا اور خود مختار ہو جانا چاہا، سلیمان نے فوراً اس کی سرکوبی کے لٸے ایک فوج روانہ کی، غزالی کو شکست ہوٸی اور قتل کر دیا گیا، اس کے قتل سے نہ صرف شام کا فتنہ فرو ہو گیا بلکہ شاہ اسماعیل کے معاندانہ ارادوں کا بھی خاتمہ ہو گیا، جس نے غزالی کی بغاوت سے فاٸدہ اٹھانے کی غرض سے شام کی سرحد پر اپنی فوجیں تیار رکھی تھیں۔

:بحیثیت سلطان
سلیمان اعظم کا عہدِ حکومت نہ صرف تاریخِ عثمانیہ بلکہ تاریخِ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے ،1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سے دولت عثمانیہ کے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوشحالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 46 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہو رہی تھیں، مغربی یورپ کی سلطنتیں قرونِ وسطیٰ کے خلفشار سے نکل کر عہدِ جدید کی معرکہ آراٸیوں کے لٸے تیار ہو رہی تھیں، سلطنتِ عثمانیہ اور ان کے درمیان چالیس سال سے کوٸی بڑی جنگ نہیں ہوٸی تھی، یورپ میں بایزید ثانی کی لڑاٸیاں چھوٹی چھوٹی مسیحی ریاستوں کے ساتھ محدود تھیں، سلیم اول کی توجہ تمام تر اسلامی سلطنتوں کی جانب مبذول رہی، اس مدت میں یورپ کی سلطنتوں نے بہت نمایاں طور پر ترقی کر لی تھی، اسپین سے مورس کا اخراج ہو چکا تھا اور وہاں کی مختلف مسیحی ریاستیں متحد ہو کر ایک فرمان روا کے زیرِ حکومت آچکی تھیں، فرانس اپنی خانہ جنگیوں کو ختم کرکے دوسرے ملکوں کی فتوحات کے لٸے نکل چکا تھا، انگلستان اور سلطنتِ آسٹریا میں بھی قوت و استحکام کی علامتیں ظاہر تھیں، من جملہ دیگر فنون کے فنِ حرب میں خصوصیت کے ساتھ بہت زیادہ ترقی ہو گٸی تھی، باقاعدہ تنخواہ دار پیدل فوجیں بڑی تعداد میں رکھ لی گٸیں تھیں، آتشیں اسلحوں کا استعمال کثرت سے کیا جارہا تھا، عیساٸی سلطنتوں میں اپنی قوت کا احساس اور مسلمانوں سے تازہ مقابلے کا حوصلہ شدت سے پیدا تھا، یورپ مذہبی جوش سے لبریز تھا اور باہمی عداوتوں کے باوجود تمام مسیحی سلطنتیں دولت عثمانیہ کے مقابلے کے لٸے آمادہ و مستعد تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈ اور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔ یہ یورپ کی بیداری کا زمانہ تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لیے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ دولت عثمانیہ کے لٸے چارلس اور اس کے معاونین سے قوت آزماٸی کرنا آسان نہ تھا، خصوصاً ایسی حالت میں کہ ایران کی وسیع سلطنت دشمنی پر آمادہ تھی اور شام و مصر میں ہر وقت بغاوت کا خطرہ تھا، چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکن جہاد کا جو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انہیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔ اس میں شبہ نہیں کہ سولہویں صدی میں ترکوں کی عظیم الشان کامیابی کا سبب ان کی زبردست فوجی قوت اور اپنی قومی عظمت کا احساس تھا لیکن اس کامیابی کا اصل سبب یہ تھا کہ عنانِ سلطنت ایک ایسے فرمان روا کے ہاتھ میں تھی جو دولت عثمانیہ کا سب سے بڑا تاج دار اور اس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہنشاہ تھا۔

:فتح بلغراد
سلیم اول کے آخری دورِ حکومت میں سلطنت عثمانیہ اور سلطنت ہنگری کے درمیان آویزش پیدا ہوگٸی تھی اور سرحدی علاقہ میں برابر چھوٹی چھوٹی لڑاٸیاں ہوتی رہتی تھیں، اس خلش کو دور کرنے کے لٸے سلیمان کو بلغراد اور زباکز (Szabacez) کے سرحدی قلعوں کو فتح کرنا ضروری ہو گیا، ان قلعوں کی فتح سرحد کے استحکام کے لٸے بھی ضروری تھی اور یورپ میں مزید فتوحات حاصل کرنے کے لٸے بھی، چنانچہ سلیمان نے ہنگری کے بادشاہ لوٸی ثانی کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور اس سے خراج کا مطالبہ کیا، لوٸی نے اس مطالبہ کے جواب میں عثمانی سفراء کو قتل کرا دیا، سلیمان کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ فوراً ہنگری کی فتح کے لٸے روانہ ہو گیا، اس کے فوجی سرداروں نے زباکر اور دوسرے قلعوں کا محاصرہ کرکے قبضہ کر لیا، اس کے بعد سلیمان خود بلغراد کی طرف بڑھا اور اس شہر کے گرد جس نے محمد فاتح جیسے سلطان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا، اپنے خیمے نصب کردئے، سات روز کی گولہ باری کے بعد 25 رمضان 927ھ (21 اگست 1521ء) کو بلغراد فتح ہو گیا، فتح کے بعد نہ قلعہ کے فوجی دستے کا قتلِ عام ہوا اور نہ شہر کے باشندے قتل کٸے گٸے، سلیمان نے وہاں کے سب سے بڑے گرجا میں نماز ادا کی اور تثلیث کے اس عظیم الشان معبد کو خدائے واحد کی پرستش کے لٸے مخصوص کر دیا، اس کے بعد اس نے بلغراد میں ایک ترکی دستہ متعین کیا اور قلعہ کو ازسرِ نو مضبوط اور مستحکم کرکے قسطنطنیہ واپس ہوا، بلغراد کے علاوہ سرحد کے دوسرے قلعوں پر بھی عثمانیوں نے قبضہ کر لیا اور ہنگری میں داخل ہونے کے تمام دروازے ان کے لٸے کھل گٸے۔

:جمہوریہ وینس کا باج گزار ہونا
بلغراد کی فتح کا ایک اثر یہ ہوا کہ جمہوریہ وینس نے ازسرِنو اپنے کو سلطنتِ عثمانیہ کا باج گزار تسلیم کر لیا اور جزاٸر قبرص (ساٸپرس) وزانطہ کا خراج دو چند کر دیا۔

:فتح رودوش
رودوش کی فتح مختلف وجوہ سے ضروری تھی، بلغراد اور رودوش یہی دو معرکے تھے جن میں سلطان محمد فاتح نے شکست کھاٸی تھی، بلغراد کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کے دامن سے ایک شکست کا داغ تو دھودیا، سلیمان کی عالی حوصلگی دوسرے دھبے کے دھونے کے لٸے بے قرار تھی، علاوہ بریں رودوش کے جہاز بحر روم کے مشرقی حصہ میں اور مجمع الجزاٸر اور اناطولیہ کے ساحلوں پر لوٹ مار مچائے رہتے تھے، رودوش کی فتح اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ قسطنطنیہ اور شام و مصر کے درمیان جو تعلقات اب قاٸم ہوگٸے تھے ان میں مبارزینِ رودوش اپنے جہازوں کے ذریعے رخنہ انداز ہوتے رہتے تھے، ان اسباب کی بنا پر سلیمان نے اس جزیرہ پر قبضہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور تین سو جہازوں کا عثمانی بیڑا قسطنطنیہ سے رودوش کی جانب روانہ کیا، ساتھ ہی وہ خود بھی ایک لاکھ فوج لے کر ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کی طرف بڑھا، بحری اور بری فوجوں کے جمع ہونے کی جگہ خلیج مارمریس قرار پاٸی، جو رودوش کے محاذ میں واقع ہے، 4 رمضان 928ھ (28 جولائی 1522ء) کو سلطان رودوش کے ساحل پر اترے اور 8 رمضان 928ھ (یکم اگست 1528ء) کو رودوش کا محاصرہ شروع ہوا، جو تقریباً 5 ماہ تک جاری رہا۔ رودوش کے راہب مبارزین نے نہایت شجاعت کے ساتھ مدافعت کی لیکن محاصرین کی قوت سے مجبور ہوکر بالآخر انہیں 6 صفر 929ھ (25 دسمبر 1522ء) کو ہتھیار ڈال دینے پڑے، سلیمان نے ان کے ساتھ جو مراعات برتیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی شجاعت کا کس درجہ قدردان تھا، اس نے مبارزین کو اجازت دے دی کہ بارہ روز کے اندر اپنے تمام اسلحوں اور سامانوں کو لے کر اپنے ہی جہازوں پر رودوش سے چلے جاٸیں اور اگر ضرورت سمجھیں تو عثمانی جہازوں کو بھی کام میں لاٸیں، رودوش کے باشندوں کو سلطان کی رعایا بننے کے بعد پوری مذہبی آزادی دے دی گٸی، سلطان نے صراحت کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے کلیساؤں سے کوٸی تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے بچے والدین سے چھینے نہ جاٸیں گے اور پانچ سال تک ان سے کسی قسم کے ٹیکس یا محصول کا مطالبہ نہ ہوگا، سلیمان نے اپنی فوجیں قلعہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہٹالیں تاکہ مبارزین امن و سکون کے ساتھ قلعہ سے نکل جاٸیں لیکن ینی چری باوجود سخت روک تھام کے بے قابو ہوگٸے اور شہر میں داخل ہوکر تھوڑی دیر تک لوٹ مار کرتے رہے، تاہم اور تمام شراٸیط سلیمان کی طرف سے نہایت دیانتداری کے ساتھ پورے کٸے گٸے، مبارزینِ رودوش نے وہاں سے نکلنے کے بعد آٹھ سال تک جزیرہ کریٹ میں قیام کیا اور پھر مستقل طور پر جزیرہ مالٹا میں جاکر آباد ہوگٸے۔

:وفات
1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہو گئی جس میں مسیحیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لیے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ سگتوار کا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہو گیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہو رہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیر اعظم صوقوللی پاشا نے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فورا موقوف ہو گئے اور فضا سوگوار ہو گئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔